Friday 24 December 2021

الفاظ اور تاثیر

 



 

الفاظ اور تاثیر

 

لفظ همارے اظہار کا ذریعہ ہیں ان سے ہم لوگوں سے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔ ان ہی کے ذریعے ہم ان سے اپنی نفرت اور محبت، غصہ ، عداوت، کینہ، بغض اور ہر قسم کے جذبات ادا کرتے ہیں۔

ہمارے سیاسی رہنما لفظی گولہ باری کرتے ہیں اور سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر لوگ لفظی جنگ بھی اس کے ساتھ لڑتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہم الفاظ کو اظہار کے علاوہ جنگ میں فوجی کی طرح بھی استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ چاپلوسی کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان سے ہم کسی کی ایسی تعریف اور توصیف بھی کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو توپ چیز سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ ان سے ہم دوسروں کو بے عزت بھی کر سکتے ہیں۔ ان سے کسی کو لبھا اور دھمکا بھی سکتے ہیں۔ ان سے ہم کسی کو ہیرو اور زیرو بھی کر سکتے ہیں۔ الغرض الفاظ اظہار کا وہ ذریعہ ہیں جن سے ہم کوئی بھی کام لے سکتے ہیں۔

گفتگو کی ایک ایسی قسم بھی ہے جس میں الفاظ بلکل بھی استعمال نہیں ہوتے۔ اس میں تاثرات، حرکات و سکنات، آواز کا أوتار چڑھاؤ، الفاظ کا طرز ادائیگی، سکوت، جگہ اور تعلقات کی نوعیت سب مل کر الفاظ کو مفہوم عطا کرتے ہیں۔

الفاظ میں تاثیر، غصہ، شدت جذبات، نفرت، محبت، گلہ، شکوہ ایسا کچھ نہیں ہوتا بلکہ وہ بولنے والے کی ادائیگی الفاظ میں ہوتا ہے۔ کسی لفظ میں کاٹ یا زہر نہیں ہوتا ۔ لفظ کی ادائیگی میں ہوتا ہے۔ اس لئے لہجہ اور ادائیگی زیادہ پر تاثیر ہوتی ہے۔ یہ دوست بھی بنا سکتی ہے اور دشمن بھی۔ قرآن مجید میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ دشمن سے بھلے طریقے سے بات کو وہ تمہارا بہترین دوست بن جائیگا۔ لہجے کا خلوص، بے معنی الفاظ میں شہد بھر دیتا ہے اور لہجے کا زہر با معنی الفاظ کو بے تاثیر کر کے رکھ دیتا ہے۔

صرف6000  سے اوپر آیات میں وہ تاثیر ہے جو اب تک لکھے جانے والے کروڑوں الفاظ میں نہیں ملتی۔ یہ وہ لفظوں کا اعجاز ہے جو مالک کائنات نے محبوب کائنات کے دہن مبارک سے ادا کروائے۔ ایک ایک لفظ اس صادق اور امیں کے دہن مبارک سے نکلا جو نبوت سے پہلے ہی اپنے صدق، امانت، خلوص، درد دل، بے لوث خدمت، ایثار اور قربانی کے لئے مشہور تھے6000 سے اوپر  آیات ہی نہیں تھیں بلکہ وہ حکمت کے موتی تھے جو محبوب کائنات کے رب نے ایسی شخصیت کے ذریعے نوع انسانی تک پہنچائے جو درد دل اور خلوص و فا کے پیکر تھے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم وہ عظیم ہستی جن کے دہن مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ ان کے کئے ہوئے ہر عمل کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اور دلوں کو الٹنے پلٹنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر گواہ تھا۔

افسوس اب ہم نے اس کتاب کو صرف الفاظ سمجھ لیا اور الفاظ سے ہی تبلیغ میں لگ گئے۔ الفاظ کے غازی بن کر اعمال کے غازی کو دفن کر دیا۔ اور ایسے بھٹکے کہ اب ہمیں یاد بھی نہیں کہ وہ 6666 أيات کون  سی ہیں ۔ ہمیں  صرف وہ ہی پتا ہے جو ہمارے آباء اور علما نے ہمیں بتا دیا یا پڑھا دیا۔

آئیے اب اصل الفاظ کو دل اور جان سے پڑھیں اور اس کو روح اور دل کی گہرائی سے پڑھیں اور اس کی گیرائی کو جاننے کی کوشش کریں۔

آؤ "حئ الفلاح" کی طرف

آؤ اس "ابدی فلاح" کی طرف جو اس میں ہے۔

 


5 comments:

  1. 💕 جزاک اللہ خیرا فائز صاحب

    ReplyDelete
  2. صحیح فرمایا ۔ کاش ھم الفاظ کی روح تک جا کے پیغام کو سمجھ سکیں ۔

    ReplyDelete
  3. Maa Shaa Allah Sir, bhut khoob Likha ha. Salamt Rahain

    ReplyDelete
  4. الفاظ شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اور آپ کی تحریر سے یہ چھلک رہا ہے۔سلامت رھیں

    ReplyDelete

Thanks for reading the blog... Keep reading, sharing and spreading.

IDIOMS 5