Monday 13 December 2021

میڈیا کا کردار اور ہماری نفسیات


نوّے  کی دہائی میں مارون گولڈ کا ایک اشتہارآیا کرتا تھا، مجھے یاد ہے کہ 1995 سے 1998 تک ہر عید کو وہ اشتہار
  PTV پر دکھایا جاتا تھا،  مارون گولڈ ایک سگریٹ کا برانڈ تھا شاید اب بھی ہو، اس اشتہار میں کمپنی نے اپنی مصنوعات  کی مشہوری کے بجائے پاکستان کے تمام صوبوں کی ثقافت کو ایک ساتھ دکھانے کی کوشش کی، جس کا عنوان بھی  Rhythm of unity تھا۔ یقینًا اس کوشش میں تاثیر تھی، اس اشتہار میں ہر صوبے کے لوگ اپنے روائتی رقص کے ساتھ داخل ہوتے ہوئے ایک گھیرا بناتے  اور اسے جاری رکھتے، اسی طرح دوسرے صوبے کے لوگ بھی اس میں شامل ہوتے چلے جاتے، ہر کوئی اپنی موسیقی اور اپنے روایتی کپڑوں میں ملبوث قطار بنائے اکھٹے ہوتے چلے جاتے، مگر اشتہار بنانے والے نے اس بات کا خاص خیال رکھا تھا جو اس کا کمال تھا، ہر صوبے کے کپڑوں کی بناوٹ اس کے روایت کے مطابق تھی مگر رنگ سب کا ایک تھا، گویا ہم کسی بھی صوبے سے تعلق  رکھتے ہوں مگر"اس پرچم کے سائے تلے ہم  ایک ہیں"،  اس میں ایک منظر دوسرے منظر  میں بہت تیزی سے منتقل ہوتا چلا جاتا تھا  مگر اس میں محبت، اتفاق، اتحاد اور بھائی چارے کے عنصر کو بہت خوبصورتی سے دکھایا گیا تھا، جب وہ ایک دوسرے  کے مقابل ہوتے  دکھائی دیتے تو خوشی اور مسکراہٹ کو واضح رکھا گیا،  ایک بھیڑ کے باوجود کوئی تصادم یا بدمزگی کا عنصر نہیں دکھایا گیا، گویا سب الگ ہونے کے باوجود ایک ہی ہیں۔

اس اشتہار کو میں جب بھی ٹی وی پر دیکھتا تھا تو  اندر ایک حب الوطنی اور خوشی کا جذبہ ابھرا کرتا تھا، اس کے اثر سے دوسرے صوبے کے لوگوں سے ملنے کو دل چاہتا تھا اور جب کبھی ملاقات ہوجاتی تو ان کی زبان میں انہیں سلام کرنے کی کوشش کرتا تھا، بلا وجہ ان سے باتیں کرنے کو دل چاہتا تھا، جس سے ایک قربت کی فضاء بن جاتی تھی، پھر سوچا کہ شاید یہ احساس فقط  مجھ تک محدود ہے جب تک ایک دوست نے یہی بات نہ بتائی مجھے، پھر معلوم  ہوا کہ یہ اشتہار اور میڈیا پر دیگر مثبت پروگرامز کابراہ راست اثر ہماری نفسیات پر ہورہا تھا جس کی وجہ سے ایک بھائی چارگی کی فضاء باقی تھی، لوگ ایک دوسرے کے لیے احساس رکھتے تھے، غلطیوں کو معاف کیا کرتے تھے، ایک دوسرے سے محبت کا جذبہ رکھتے تھے۔

مگر وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا اس اشتہار کے بعد مجھے کوئی پاکستان دوست، بھائی چارگی اور محبت والے  اشتہار نظر نہ آئے، اس وقت سمجھ بھی اتنی پختہ نہ تھی مگر آج ان کی کمی شدت سے محسوس کرتا ہوں، آج ہمارے دلوں میں ایک دوسرے سے نفرت، چہروں پر غصہ ہے، ضد اور حسد کی ایک  وجہ  اس میڈیا پر دکھائے جانے والے منفی کرداروں کے اثرات ہیں۔  مذہب کے نام پر، سیاست کے نام پر، ذات برادری کے نام پر، صوبوں اور شہروں کے نام پر ہم بٹھتے چلے  گئے اور یہ میڈیا اسے ہوا دیتا رہا، کہتے ہیں کہ مواصلات کی وجہ سے فاصلے کم ہوگئے مگر میرے لیے قریب دور ہوگیا ، اپنے پرائے ہوگئے، محبت اور بھائی چارگی کی جگہ ضد ،حسد و تقابل، نے لے لی۔

شاید اب بھی کہیں ہم میں ایک رہنے کی خواہش ہو، یقینًا ہوگی! اس ضد و حسد کے علاج کی خواہش ہو۔  میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آج سےسب کچھ دیکھنا چھوڑ دیں   مگر اتنا ضرورکہہ سکتا ہوں ، اپنے معمولات زندگی میں  اس بات کو بھی جگہ دیں کہ روزانہ ایک ایسی پوسٹ اپنے سوشل میڈیا پر ضرور لگائیں جس کے مثبت اثرات معاشرے پر ہوں۔

دعاؤں کا طالب

محمد علی بلوچ

2 comments:

  1. Nice dear.
    Plz keep it up.
    Let's try to bring a positive change in our society by joining hands with like minded people on this platform.
    Ameen

    ReplyDelete
    Replies
    1. جزاک اللہ خیرًا
      ان شآءاللہ

      Delete

Thanks for reading the blog... Keep reading, sharing and spreading.

IDIOMS 5