Wednesday 15 December 2021

دسمبر ۔ سیز فائر سے پشاور تک۔


آہ دسمبر 

دسمبر کا مہینہ ہر پرستار قدرت اور عشاق ندرت کا نہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ اس مہینے میں شاعر اپنا بہترین کلام پیش کرکے داد و تحسین وصول کرتے ہیں ۔اس موسم میں بہار سے زیادہ خوبصورتی ، تنوع ، دلفریب، دیدہ زیب ، خوشنما رنگ انسانی ذوق اور جمالیات کو ایسا روحانی سکوں بخشتے  ہیں اور ایسے ایسے اسباق گرے ہوئے پتوں اور ڈالیوں  کی صورت میں ہمیں دکھاتے ہیں جو دنیا کی کوئی کتاب نہ پڑھا سکتی ہے نہ سکھا سکتی ہے۔ زندگی کی نا پائیداری اور بے ثباتی گرے ہوئے پتے اور سر سبز پتے دوسری طرف اس زندگی کے چلتے رہنے کا نام ہے جو اس دن ختم ہو گی جس دن صور اسرافیل بجایاجائیگا  لیکن کیا کروں میں دسمبر کے حسین نظارے  دیکھوں یا ان 90 ہزار فوجی جوانوں کو دیکھوں جو بے رحم سیاست کی بھینٹ چڑھ کر قیدوبند  کی صعوبتیں  برداشت کرتے رہے اور میرا ایک بازو میرے جسم سے جدا ہو گیا۔ میں گرے ہوئے پتوں کی خوبصورتی سے محظوظ ہوں  یا ان پتوں پر آنسو بہاوں جو بن کھلے،آنگن کو حسن بخشنے سے پہلے ہی کسی بے رحم درندے  کی گولی کا نشانہ بن کر اپنے ہی آنگن کے درودیوار کو خون آلود کر کے اپنوں کے خون ہمیشہ کے لئے ڈرنے کو چھوڑ گئے۔ دسمبر تو تو بے رحم نہیں تھا ۔ تیری خوبصورتی تو مجھے پسند تھی تو کیوں مجھے تارتار کر گیا۔ ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں تو نے نہیں میں نے خود ہی  اپنے جسم کو تار تار کیا۔ اس کی بوٹیاں  نچوڑیں، اس کو اپنے ہاتھوں سے درندوں کو سونپا اسے اپنے ہاتھوں سے قاتلوں کے بے رحم ہاتھوں ، خون آلود نظروں اور سفاک دل کے ہاتھوں سونپ دیا تاکہ وہ ننھی کلیوں اور ادھر کھلے پھولوں کو اپنی موت اگلتی، بے حس، ننگ  انسان بندوق سے اپنی حیوانیت  اور خون پینے کی پیاس بجھا سکے اور اپنے خود ساختہ مذہب کا نام اونچا کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہم نہ اپنے بازو کو بھولے  ہیں، نہ اپنے بچوں کو بھولیں گے۔ ہم تمیں بھی نہیں بھولیں گے۔ جب تک دنیا رہے گے دسمبر آتا رہے گا۔ اے پی ایس کے بچے ہمیں رولاتے  رہیں گے ہماری آنکھوں کا پانی خشک ہو جائیگا لیکن اے دسمبر ہم اپنے بچوں کو نہ بھولیں گے اور نہ ہم ان کے قاتلوں کو۔ 



19 comments:

  1. This highlights the exploitation used as a weapon by the politicians and other ruling Elite. They use human beings as fodder to achieve their nefarious designs. It is a must read article, an eye opener

    ReplyDelete
    Replies
    1. JazakAllah sir
      Obliged and thankful
      Plz share the blog with friends.

      Delete
  2. اور نہ انکے سہولت کاروں کو بھولیں گے.........

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thank you Arham
      Plz do share the article with friends.
      Humbled

      Delete
  3. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  4. واقعات کا ہونا منصوبہ بندی ضرور تھیں، دسمبر اتفاق تھا لیکن آپ کے اس حسین امتزاج نے دونوں واقعات کو یکجا لاکھڑا کیا، جو ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ ہم یاد ہیں؟
    کچھ غموں کو اتازہ رہنا چاہیے.
    جزاک اللہ خیرًا

    ReplyDelete
  5. ہم کیوں، ان سفاک لوگوں کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں 🙄
    کیا دسمبر کے اسباق سے ہم سیکھیں گے نہیں؟؟

    ReplyDelete
  6. ماشاءاللہ بہت اچھا لکھا سر۔ اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم تاریخ سے لاعلم رہیں گے تب تک اس سے سبق بھی نہیں سیکھ پائیں گے۔

    ReplyDelete
  7. Very emotional but thought provoking writing . . . its more tragic that we never get lesson from the past.

    ReplyDelete
  8. Lakin hakoomat ne to TTP se Razi nama kr liya ha ab ap kiya yaad rakhain gay

    ReplyDelete
  9. 😢 جزاک اللہ خیرا سر

    اللہ تعالیٰ ہمیں انسانوں کے لیے بھیجے گئے اس دینِ رحمت کا درست فہم عطا فرمائیں، آمین.

    ReplyDelete
  10. طن کی خاطر جیے مریں گے یہ طے ہو ا تھا

    بوقتِ ہجرت قدم اُٹھیں گے جو سوئے منزل
    تو بیچ رستے میں دَم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا

    چہار جانب بہار آئی ہوئی تھی لیکن
    بہار کو اعتبار دیں گے یہ طے ہوا تھا

    تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کرکے
    نئے وطن کو وطن کہیں گے ، یہ طے ہوا تھا

    خدا کے بندے خدا کی بستی بسانے والے
    خدا کے احکام پر چلیں گے یہ طے ہوا تھا

    بغیرِ تخصیص پست و بالا ہر اک مکاں میں
    دیئے مساوات کے جلیں گے، یہ طے ہوا تھا

    کسی بھی اُلجھن میں رہبروں کی رضا سے پہلے
    عوام سے اذنِ عام لیں گے، یہ طے ہوا تھا

    تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے
    جو طے نہیں ہے، وہ طے کریں گے، یہ طے ہوا تھا

    حنیف اسعدی

    ReplyDelete

Thanks for reading the blog... Keep reading, sharing and spreading.

IDIOMS 5