Monday 20 December 2021

آج کی آیت : السجدۃ: 20

وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ١ؕ كُلَّمَاۤ اَرَادُوْۤا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَاۤ اُعِیْدُوْا فِیْهَا وَ قِیْلَ لَهُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ
ترجمہ: رہے وہ جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب جب وہ اس میں سے نکلنے کی کوشش کریں گے اسی میں دھکیلے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اب اس دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھو جس کی تم تکذیب کرتے رہے تھے۔


عربی کے وہ الفاظ جنہیں ہم جانتے ہیں یا اردو میں مستعمل ہیں:

فَسَقُوْا : نافرمانی کی

النَّارُ : جہنم

اَرَادُوْٓا : وہ ارادہ کریں گے

اَنْ يَّخْرُجُوْا : کہ وہ نکلیں

مِنْهَآ : اس سے

فِيْهَا : اس میں

وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا

ذُوْقُوْا : تم چکھو

عَذَابَ النَّارِ : دوزخ کا عذاب

تُكَذِّبُوْنَ : جھٹلاتے

 

خالص عربی کے الفاظ:

وَاَمَّا : اور رہے

الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے

فَمَاْوٰىهُمُ : تو ان کا ٹھکانا

كُلَّمَآ : جب بھی

اُعِيْدُوْا : لوٹا دیئے جائیں گے

لَهُمْ : انہیں

الَّذِيْ : وہ جو

كُنْتُمْ : تم تھے

بِهٖ : اس کو

 

مشکل الفاظ:

اُعِيْدُوْا :   ( ع و د) لوٹنا۔

جب کسی فعل کے شروع میں مادّہ کے حرف کے علاوہ "ا" آجائے تو اس میں کام کے ہونے سے  کرنے کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔

فعل معروف Active Voiceاور فعل مجہول Passive Voice:

جس فعل میں فاعل موجود  ہو وہ معروف ہوتا ہے، جیسے "اس نے مارا/وہ مارے گا"  اور فاعل موجود نہ ہو وہ مجہول ہوتا ہے، جیسے "مارا گیا/مارا جائے گا" ، عربی میں اس کی عام علامت پہلے حرف پر پیش آجاتا ہے   ۔

 فعل کے آخر میں وْا جمع کی علامت ہے۔

       یہ فعل کرنے کا مفہوم بھی پیش کررہا ہے،مجہول بھی ہے اور جمع میں ہے۔

جس کا اردو میں یوں ترجمہ ممکن ہے: "لوٹا دیئے جائیں گے"

یہ فعل ماضی ہے جس کا ترجمہ " لوٹا دیئے گئے" ہونا چاہیے تھا مگر یہاں "لوٹا دیئے جائیں گے" کیا گیا ہے۔


    یہاں زبان کے اسلوب  میں ایک خاص بات ہے جس کی طرف توجہ چاہونگا جو میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں،فعل  دو قسم کے ہوسکتے ہیں فعل ماضی
 
(Perfect verb
)
اورفعل مضارع  (Imperfect verb)، جب کوئی مستقبل کی یقینی بات بیان کرنی ہو تو ماضی کا فعل استعمال ہوتا ہے۔

 جیسے میں اگر کہوں "میں کرچکا" تو یہ یقنی بات ہوگی اور اگر میں کہوں کہ "میں کرونگا" تو یہ بات پوری طرح یقینی نہیں کہ میں کرسکونگا یا  نہیں۔

اُعِيْدُوْا کا مضارع کی جگہ ماضی میں آناواضح کررہا ہے کہ  اللہ  کےنافرمانوں کا  ٹھکانہ" آگ" یقینی ہے۔

 

تفہیم:

اس سورۃ  میں آپ ﷺ کو تسلی دی گئی اور بتایا گیا کہ جس طرح پہلے موسٰی ؑکو  کتاب دی گئی تھی اسی طرح  یہ قرآن اللہ تعالی  کی اتاری ہوئی کتاب ہے، اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں، جو لوگ اسے افتراء سمجھ رہے ہیں اور جھٹلا رہے ہیں آگاہ رہیں کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور اہل ایمان کو بشارت ہے کہ اللہ کی ابدی نعمتوں میں رہیں گے۔

سابقہ آیت میں  اہل ایمان کی جزا بیان  کرنے کے بعد اس آیت میں فاسقوں کا انجام بیان ہوا ہے۔

اللہ تعالٰی ہمیں اپنے فرمانبرداروں ساتھ اٹھائے۔

آمین

3 comments:

  1. جزاک اللہ تبارک و تعالی
    اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اس کا بھرپور اور دے اور ہمیں قرآن مجید کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین

    ReplyDelete
  2. آمین
    جزاک اللہ خیرًا

    ReplyDelete
  3. 💕 جزاک اللہ خیرا علی بھائی

    بہت ہی مفید تحریر ہے علی بھائی اس سلسلے کو جاری رکھیے گا تاکہ ہم عربی زبان کا فہم حاصل کر سکیں.

    اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں اضافہ فرمائیں، آمین. 🤗

    ReplyDelete

Thanks for reading the blog... Keep reading, sharing and spreading.

IDIOMS 5