This blog has been made to create awareness in our youth about Moral, Religious, Social, and Educational Values. we need a cohesive culture excluding extremism, violence, and doing away with polarization in politics, religion and society. we want to make a society of thinking youth not a blinded youth who know nothing about research, analysis, creativity, challenging and "Scientific Thinking"
Monday, 3 January 2022
ایک کلمہ
Friday, 24 December 2021
الفاظ اور تاثیر
![]() |
الفاظ اور تاثیر
لفظ همارے اظہار کا ذریعہ ہیں ان سے ہم لوگوں سے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔
ان ہی کے ذریعے ہم ان سے اپنی نفرت اور محبت، غصہ ، عداوت، کینہ، بغض اور ہر قسم
کے جذبات ادا کرتے ہیں۔
ہمارے سیاسی رہنما لفظی گولہ باری کرتے ہیں اور سماجی رابطے کی ویب سائیٹس
پر لوگ لفظی جنگ بھی اس کے ساتھ لڑتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہم الفاظ کو اظہار کے
علاوہ جنگ میں فوجی کی طرح بھی استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ چاپلوسی کے لئے بھی
استعمال ہوتے ہیں۔ ان سے ہم کسی کی ایسی تعریف اور توصیف بھی کر سکتے ہیں کہ وہ
اپنے آپ کو توپ چیز سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ ان سے ہم دوسروں کو بے عزت بھی کر
سکتے ہیں۔ ان سے کسی کو لبھا اور دھمکا بھی سکتے ہیں۔ ان سے ہم کسی کو ہیرو اور
زیرو بھی کر سکتے ہیں۔ الغرض الفاظ اظہار کا وہ ذریعہ ہیں جن سے ہم کوئی بھی کام
لے سکتے ہیں۔
گفتگو کی ایک ایسی قسم بھی ہے جس میں الفاظ بلکل بھی استعمال نہیں ہوتے۔
اس میں تاثرات، حرکات و سکنات، آواز کا أوتار چڑھاؤ، الفاظ کا طرز ادائیگی، سکوت،
جگہ اور تعلقات کی نوعیت سب مل کر الفاظ کو مفہوم عطا کرتے ہیں۔
الفاظ میں تاثیر، غصہ، شدت جذبات، نفرت، محبت، گلہ، شکوہ ایسا کچھ نہیں
ہوتا بلکہ وہ بولنے والے کی ادائیگی الفاظ میں ہوتا ہے۔ کسی لفظ میں کاٹ یا زہر
نہیں ہوتا ۔ لفظ کی ادائیگی میں ہوتا ہے۔ اس لئے لہجہ اور ادائیگی زیادہ پر تاثیر
ہوتی ہے۔ یہ دوست بھی بنا سکتی ہے اور دشمن بھی۔ قرآن مجید میں بھی اسی طرف اشارہ
ہے کہ دشمن سے بھلے طریقے سے بات کو وہ تمہارا بہترین دوست بن جائیگا۔ لہجے کا
خلوص، بے معنی الفاظ میں شہد بھر دیتا ہے اور لہجے کا زہر با معنی الفاظ کو بے
تاثیر کر کے رکھ دیتا ہے۔
صرف6000 سے اوپر آیات میں وہ تاثیر ہے جو اب تک لکھے جانے والے کروڑوں الفاظ میں
نہیں ملتی۔ یہ وہ لفظوں کا اعجاز ہے جو مالک کائنات نے محبوب کائنات کے دہن مبارک
سے ادا کروائے۔ ایک ایک لفظ اس صادق اور امیں کے دہن مبارک سے نکلا جو نبوت سے
پہلے ہی اپنے صدق، امانت، خلوص، درد دل، بے لوث خدمت، ایثار اور قربانی کے لئے
مشہور تھے6000 سے اوپر آیات ہی نہیں تھیں بلکہ وہ حکمت کے موتی تھے جو محبوب کائنات کے
رب نے ایسی شخصیت کے ذریعے نوع انسانی تک پہنچائے جو درد دل اور خلوص و فا کے پیکر
تھے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم وہ عظیم ہستی جن کے دہن مبارک سے نکلا ہوا ہر
لفظ ان کے کئے ہوئے ہر عمل کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اور دلوں کو الٹنے پلٹنے کی صلاحیت
رکھتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر گواہ تھا۔
افسوس اب ہم نے اس کتاب کو صرف الفاظ سمجھ لیا اور الفاظ سے ہی تبلیغ میں
لگ گئے۔ الفاظ کے غازی بن کر اعمال کے غازی کو دفن کر دیا۔ اور ایسے بھٹکے کہ اب
ہمیں یاد بھی نہیں کہ وہ 6666 أيات کون سی
ہیں ۔ ہمیں صرف وہ ہی پتا ہے جو ہمارے
آباء اور علما نے ہمیں بتا دیا یا پڑھا دیا۔
آئیے اب اصل الفاظ کو دل اور جان سے پڑھیں اور اس کو روح اور دل کی گہرائی
سے پڑھیں اور اس کی گیرائی کو جاننے کی کوشش کریں۔
آؤ "حئ الفلاح" کی طرف
آؤ اس "ابدی فلاح" کی طرف جو اس میں ہے۔
Thursday, 23 December 2021
غرور اور تعصب
غرور اور تعصب
غرور انسان کی اس خاصیت یا ذہنی حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ اپنے علم، خوبصورتی، دولت، عہدے یا مرتبے کی وجہ
سے غیر معقول فخر محسوس کرتا ہے اور اس وجہ سے دوسروں سے
فاصلہ رکھنا یا ان سے ملنا، بات کرنا باعث
ہتک سمجھنا ہے۔ جبکہ تعصب حقائق سے لا علمی کے باوجود دوسروں کے بارے میں رائے یا
فیصلہ سنا دینے کو کہتے ہیں
یہ
دونوں روئیے خطرناک حد تک ہمیں اپنے اردگرد اپنی پوری شدت کے ساتھ نا صرف موجود
نظر آتے ہیں بلکہ ان کا پر تشدد اظہار ہر جگہ ملتا ہے۔ ہم اسلام کو امن اور آشتی
کا مذہب کہتے نہیں تھکتے لیکن ہمارا عمل اس سے بلکل مختلف ہے۔
بغیر
علم کے بحث اور بغیر عمل کے تبلیغ ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اپنے آدھے ادھورے علم
کے ساتھ ہم غرور کا بھی شکار ہوں جائیں تو ایسا طرز عمل ہمارے سامنے آتا ہے جس کا
تجربہ ہم دن رات کرتے ہیں۔ عرب اپنی زبان اور قبیلے پر بہت فخر کرتے تھے اور آخری
درجے کی عصبیت کا شکار تھے۔ اسلام نے اس آگ کو بہت حد تک بجھایا لیکن آج کا عرب بھی
اپنے نسب، زبان، قومیت کی وجہ سے فخر و غرور میں مبتلاہے۔مغرب اگر کسی قسم کے غرور
اور تکبر میں ہے تو وہ علم،ترقی،جمہوری برتری ،سائنسی تحقیق اور برتر انسانی حقوق
اور اقدار کی وجہ سے ہے۔
ہمارے
ہاں برتر ذات، عہدہ، مذہبی فرقہ ایک ایسا تعصب ہمارے اندر بھرتا ہے جو ہمیں ایک
دوسرے کی جان، مال، ایمان، اور عزت کا دشمن بنا دیتا ہے۔
ہمیں
خطبہ حجتہ الوداع یاد رکھنے کی ضرورت ہے جو ہر قسم کے تعصب کو روکتا ہے۔ گورے کالے
کی تمیز ختم کرتا ہے۔ غلاموں اور عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔
رہی
بات غرور کی تو اس کے لئے صرف شیطان کے غرور کو ذہن میں رکھ لیں کہ اس کا غرور اس
کو کدھر لے گیا اور راندہ درگاہ کر دیا۔ اور قیامت اور قیامت کے بعد تک کی زندگی میں
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ملعون ٹھرا۔
اس تعصب
اور غرور سے ہمیں صرف اللہ، اس کی کتاب اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی بچا
سکتی ہے۔ ان دو کو چھوڑ کر کسی کی تبلیغ اور تعلیمات ہمیں قرآن کا مطلوب انسان
نہیں بنا سکتی۔
Tuesday, 21 December 2021
رواداری
رواداری
روداری
ایک وسیع المعنی لفظ اور کثیر الجہتی لفظ ہے۔ یہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک فلسفہ حیات
بھی ہے۔
رواداری
سے مراد برداشت ہی نہیں بلکہ ایسی برداشت، وسیع القلبی اور وسیع النظری ہے جس میں
آپ دوسرے کو اس کے عقائد، نظریات، اور طرز زندگی کے مطابق زندہ رہنے کا حق دیتے
ہیں جس طرح اور جس قسم کا حق آپ خود کے لئے چاہتے ہیں۔
رواداری
بہترین روئیے کا نام ہے جو دوسرے کو شخصی، دینی، مذہبی، لسانی، طور پر ہر وہ کام
کرنے کی آزادی دینا ہے تاکہ وہ آن اقدار کی پابندی کر سکے جن پر اس کا اعتقاد ہے
اور اس میں کسی قسم کا کوئی جبر نہ ہو۔
حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور عمل اس بات کا بین ثبوت ہے انہوں نے
جس معاشرے کی بنیاد رکھی اس میں عیسائی اور یہودی اپنی عبادات اور رسومات کو ادا
کرنے میں آزاد تھے۔ کیا ہم اس معاشرے میں جس کی اساس لا الہ الا اللہ پر ہے اس میں
کسی دوسرے مذہب تو کیا اپنے ہم مذہبوں کو دے رکھی ہے ۔ کیا ہمارے اخلاق اس قابل
ہیں کہ ہم مخالف کے نقطہ نظر کو برداشت کر سکیں، کیا ہم دوسروں کی علمی، مذہبی،
معاشرتی، سیاسی مخالف رائے کو معاندانہ سمجھنے کی بجائے اس کے رائے کو بھی اتنی ہی
فوقیت دیں جتنی ہم اپنی رائے کو دیتے ہیں۔