This blog has been made to create awareness in our youth about Moral, Religious, Social, and Educational Values. we need a cohesive culture excluding extremism, violence, and doing away with polarization in politics, religion and society. we want to make a society of thinking youth not a blinded youth who know nothing about research, analysis, creativity, challenging and "Scientific Thinking"
Wednesday, 29 December 2021
Simple actions lasting Effects
Tuesday, 28 December 2021
بہار دور نہیں ہے۔
Monday, 27 December 2021
Charisma or Charade
Sunday, 26 December 2021
Vote or Veto
Human beings have always been impressed by the pomp and show, so, have usually been exploited and deceived by those who use splendid display of their wealth and so called grandeur. Politicians use their fairy tale marriages, social gatherings and family function to inspire awe in the hearts of innocents who are so naïve that instead of asking about the source of income, eulogize the waste of money depicting the slavish mind. We don't care who spends what and damn care about the money if that person has not been in the politics for the last many decades.
The house of Pirs display the same pomp and show when it comes to their marriages. Useless wastage of money and resources on such things and imparting a lecture of frugality to the devotees is a clear hypocrisy which has become a norm in our society - preaching something and doing the quite opposite in reality - they earn from shrines where the innocent illiterates, semi- religious, or cult worshippers thronged to shower their hard earned or ill gotten money. Many of the visitors may have starving children at home but will ensure to offer the best at the altar of their Pirs so that these Pirs may squander that on their luxuries and foreign visits.
A country where 22 percent of the population lives below poverty line, 22.8 million children aged 5 to 16 are out of school, (44 percent of the total population in this age bracket) 5 million children are never enrolled in school, 11.4 million adolescents between the ages of 10-14 are not getting the formal education, in Sindh 52 percent of the poorest children are out of school, in Baluchistan 78 percent of girls are out of schools. 10.8 million boys and 8.6 million girls are enrolled at primary level which drops to 3.6 million boys and 2.8 million girls at a lower secondary level. Currently Pakistan has the world's second highest out-of-school children. (Unicef Report 2021)
It is a criminal negligence on behalf of all the leaders whether political or religious so that they may continue their spree of loot, plunder, exploitation and could continue holding their leash on the neck of the poor, disadvantaged, impoverished people. If these poor lot be educated then the exploiters would die their natural death. But who will bell the cat especially in Baluchistan, interior Sindh, Erstwhile FATA, KPK, and South Punjab where literacy rate is extremely poor which give them a life time opportunity to rule, generation after generation. Where they never approve of any kind of schools, basic amenities of life, where a clean water is hard to find, where women die during childbirth, where they have to fetch the patient on foot for miles to find a quack, what to talk of an MBBS Doctor. where School buildings are used to rear their thoroughbreds or milking cows.
The decision always lies in the hands of those who live in the posh and developed cities to vote for the party who remains true to its manifesto but .......who cares about the manifestoes. So let's cherish their wealth and be happy in their happiness, and celebrate our own deaths and bury our cries in the midst of their marriage drums.
let's decide we are going to vote for the same old stocks or we are going to VETO the whole process in which they just milk the cow and then let it die on the altar of their vested interest and rest in peace in the posh and comfortable properties in the west which they have bought with the milking of innocent cows at home. They have chosen this land of the pure for RULE and BURY only. Either they are here to rule or they are here to be buried, as their grave proves more profitable for their successors to get sympathy vote.
DON'T THINK ONLY BUT THIN HARD
Saturday, 25 December 2021
The Quaid e Azam
Friday, 24 December 2021
الفاظ اور تاثیر
![]() |
الفاظ اور تاثیر
لفظ همارے اظہار کا ذریعہ ہیں ان سے ہم لوگوں سے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔
ان ہی کے ذریعے ہم ان سے اپنی نفرت اور محبت، غصہ ، عداوت، کینہ، بغض اور ہر قسم
کے جذبات ادا کرتے ہیں۔
ہمارے سیاسی رہنما لفظی گولہ باری کرتے ہیں اور سماجی رابطے کی ویب سائیٹس
پر لوگ لفظی جنگ بھی اس کے ساتھ لڑتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہم الفاظ کو اظہار کے
علاوہ جنگ میں فوجی کی طرح بھی استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ چاپلوسی کے لئے بھی
استعمال ہوتے ہیں۔ ان سے ہم کسی کی ایسی تعریف اور توصیف بھی کر سکتے ہیں کہ وہ
اپنے آپ کو توپ چیز سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ ان سے ہم دوسروں کو بے عزت بھی کر
سکتے ہیں۔ ان سے کسی کو لبھا اور دھمکا بھی سکتے ہیں۔ ان سے ہم کسی کو ہیرو اور
زیرو بھی کر سکتے ہیں۔ الغرض الفاظ اظہار کا وہ ذریعہ ہیں جن سے ہم کوئی بھی کام
لے سکتے ہیں۔
گفتگو کی ایک ایسی قسم بھی ہے جس میں الفاظ بلکل بھی استعمال نہیں ہوتے۔
اس میں تاثرات، حرکات و سکنات، آواز کا أوتار چڑھاؤ، الفاظ کا طرز ادائیگی، سکوت،
جگہ اور تعلقات کی نوعیت سب مل کر الفاظ کو مفہوم عطا کرتے ہیں۔
الفاظ میں تاثیر، غصہ، شدت جذبات، نفرت، محبت، گلہ، شکوہ ایسا کچھ نہیں
ہوتا بلکہ وہ بولنے والے کی ادائیگی الفاظ میں ہوتا ہے۔ کسی لفظ میں کاٹ یا زہر
نہیں ہوتا ۔ لفظ کی ادائیگی میں ہوتا ہے۔ اس لئے لہجہ اور ادائیگی زیادہ پر تاثیر
ہوتی ہے۔ یہ دوست بھی بنا سکتی ہے اور دشمن بھی۔ قرآن مجید میں بھی اسی طرف اشارہ
ہے کہ دشمن سے بھلے طریقے سے بات کو وہ تمہارا بہترین دوست بن جائیگا۔ لہجے کا
خلوص، بے معنی الفاظ میں شہد بھر دیتا ہے اور لہجے کا زہر با معنی الفاظ کو بے
تاثیر کر کے رکھ دیتا ہے۔
صرف6000 سے اوپر آیات میں وہ تاثیر ہے جو اب تک لکھے جانے والے کروڑوں الفاظ میں
نہیں ملتی۔ یہ وہ لفظوں کا اعجاز ہے جو مالک کائنات نے محبوب کائنات کے دہن مبارک
سے ادا کروائے۔ ایک ایک لفظ اس صادق اور امیں کے دہن مبارک سے نکلا جو نبوت سے
پہلے ہی اپنے صدق، امانت، خلوص، درد دل، بے لوث خدمت، ایثار اور قربانی کے لئے
مشہور تھے6000 سے اوپر آیات ہی نہیں تھیں بلکہ وہ حکمت کے موتی تھے جو محبوب کائنات کے
رب نے ایسی شخصیت کے ذریعے نوع انسانی تک پہنچائے جو درد دل اور خلوص و فا کے پیکر
تھے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم وہ عظیم ہستی جن کے دہن مبارک سے نکلا ہوا ہر
لفظ ان کے کئے ہوئے ہر عمل کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اور دلوں کو الٹنے پلٹنے کی صلاحیت
رکھتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر گواہ تھا۔
افسوس اب ہم نے اس کتاب کو صرف الفاظ سمجھ لیا اور الفاظ سے ہی تبلیغ میں
لگ گئے۔ الفاظ کے غازی بن کر اعمال کے غازی کو دفن کر دیا۔ اور ایسے بھٹکے کہ اب
ہمیں یاد بھی نہیں کہ وہ 6666 أيات کون سی
ہیں ۔ ہمیں صرف وہ ہی پتا ہے جو ہمارے
آباء اور علما نے ہمیں بتا دیا یا پڑھا دیا۔
آئیے اب اصل الفاظ کو دل اور جان سے پڑھیں اور اس کو روح اور دل کی گہرائی
سے پڑھیں اور اس کی گیرائی کو جاننے کی کوشش کریں۔
آؤ "حئ الفلاح" کی طرف
آؤ اس "ابدی فلاح" کی طرف جو اس میں ہے۔
Thursday, 23 December 2021
غرور اور تعصب
غرور اور تعصب
غرور انسان کی اس خاصیت یا ذہنی حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ اپنے علم، خوبصورتی، دولت، عہدے یا مرتبے کی وجہ
سے غیر معقول فخر محسوس کرتا ہے اور اس وجہ سے دوسروں سے
فاصلہ رکھنا یا ان سے ملنا، بات کرنا باعث
ہتک سمجھنا ہے۔ جبکہ تعصب حقائق سے لا علمی کے باوجود دوسروں کے بارے میں رائے یا
فیصلہ سنا دینے کو کہتے ہیں
یہ
دونوں روئیے خطرناک حد تک ہمیں اپنے اردگرد اپنی پوری شدت کے ساتھ نا صرف موجود
نظر آتے ہیں بلکہ ان کا پر تشدد اظہار ہر جگہ ملتا ہے۔ ہم اسلام کو امن اور آشتی
کا مذہب کہتے نہیں تھکتے لیکن ہمارا عمل اس سے بلکل مختلف ہے۔
بغیر
علم کے بحث اور بغیر عمل کے تبلیغ ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اپنے آدھے ادھورے علم
کے ساتھ ہم غرور کا بھی شکار ہوں جائیں تو ایسا طرز عمل ہمارے سامنے آتا ہے جس کا
تجربہ ہم دن رات کرتے ہیں۔ عرب اپنی زبان اور قبیلے پر بہت فخر کرتے تھے اور آخری
درجے کی عصبیت کا شکار تھے۔ اسلام نے اس آگ کو بہت حد تک بجھایا لیکن آج کا عرب بھی
اپنے نسب، زبان، قومیت کی وجہ سے فخر و غرور میں مبتلاہے۔مغرب اگر کسی قسم کے غرور
اور تکبر میں ہے تو وہ علم،ترقی،جمہوری برتری ،سائنسی تحقیق اور برتر انسانی حقوق
اور اقدار کی وجہ سے ہے۔
ہمارے
ہاں برتر ذات، عہدہ، مذہبی فرقہ ایک ایسا تعصب ہمارے اندر بھرتا ہے جو ہمیں ایک
دوسرے کی جان، مال، ایمان، اور عزت کا دشمن بنا دیتا ہے۔
ہمیں
خطبہ حجتہ الوداع یاد رکھنے کی ضرورت ہے جو ہر قسم کے تعصب کو روکتا ہے۔ گورے کالے
کی تمیز ختم کرتا ہے۔ غلاموں اور عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔
رہی
بات غرور کی تو اس کے لئے صرف شیطان کے غرور کو ذہن میں رکھ لیں کہ اس کا غرور اس
کو کدھر لے گیا اور راندہ درگاہ کر دیا۔ اور قیامت اور قیامت کے بعد تک کی زندگی میں
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ملعون ٹھرا۔
اس تعصب
اور غرور سے ہمیں صرف اللہ، اس کی کتاب اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی بچا
سکتی ہے۔ ان دو کو چھوڑ کر کسی کی تبلیغ اور تعلیمات ہمیں قرآن کا مطلوب انسان
نہیں بنا سکتی۔
Tuesday, 21 December 2021
رواداری
رواداری
روداری
ایک وسیع المعنی لفظ اور کثیر الجہتی لفظ ہے۔ یہ صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک فلسفہ حیات
بھی ہے۔
رواداری
سے مراد برداشت ہی نہیں بلکہ ایسی برداشت، وسیع القلبی اور وسیع النظری ہے جس میں
آپ دوسرے کو اس کے عقائد، نظریات، اور طرز زندگی کے مطابق زندہ رہنے کا حق دیتے
ہیں جس طرح اور جس قسم کا حق آپ خود کے لئے چاہتے ہیں۔
رواداری
بہترین روئیے کا نام ہے جو دوسرے کو شخصی، دینی، مذہبی، لسانی، طور پر ہر وہ کام
کرنے کی آزادی دینا ہے تاکہ وہ آن اقدار کی پابندی کر سکے جن پر اس کا اعتقاد ہے
اور اس میں کسی قسم کا کوئی جبر نہ ہو۔
حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور عمل اس بات کا بین ثبوت ہے انہوں نے
جس معاشرے کی بنیاد رکھی اس میں عیسائی اور یہودی اپنی عبادات اور رسومات کو ادا
کرنے میں آزاد تھے۔ کیا ہم اس معاشرے میں جس کی اساس لا الہ الا اللہ پر ہے اس میں
کسی دوسرے مذہب تو کیا اپنے ہم مذہبوں کو دے رکھی ہے ۔ کیا ہمارے اخلاق اس قابل
ہیں کہ ہم مخالف کے نقطہ نظر کو برداشت کر سکیں، کیا ہم دوسروں کی علمی، مذہبی،
معاشرتی، سیاسی مخالف رائے کو معاندانہ سمجھنے کی بجائے اس کے رائے کو بھی اتنی ہی
فوقیت دیں جتنی ہم اپنی رائے کو دیتے ہیں۔
آج کی آیت : سورۃ التغابن: 13
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
ترجمہ: اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اللہ ہی پر چاہیے کہ بھروسہ کریں اہل ایمان۔
عربی کے وہ الفاظ جنہیں ہم جانتے ہیں یا اردو میں مستعمل ہیں:
اَللّٰهُ : اللہ تعالیٰ
لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ : نہیں کوئی الہ برحق مگر وہی
وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر ہی
فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ : پس چاہیے کہ توکل کریں مومن
نوٹ: اس آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں جسے ہم نہ پہچانتے ہوں، ذرا سی کوشش سے ہم آیت کو براہ راست سمجھ سکتے ہیں۔البتہ کچھ ملے جلے الفاظ کی وجہ سے ترجمہ کرنا مشکل لگتا ہے۔
ایک لفاظ کی وضاحت سے ان شآءاللہ ترکیب کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
فَــلْــيَـــتَــوَكَّــلِ
فَ - لْ - یـَ - تـَوَکَّلِ
پس - چاہیے کہ - وہ - توکل (کریں)
تفہیم:
سورۃ التغابن کا موضوع : دنیا کی زندگی ہی کل زندگی نہیں، اصل آخرت کی زندگی ہے اور اس دنیا میں دکھ، غم پریشانیاں اور نعمتیں ہر شئے بطور آزمائش ہے یہاں تک مال و اولاد بھی آزمائش بنیں گے، اور ایک روز اس ربّ کے حضور پیش ہونا ہے اور وہ دن حساب کا دن ہوگا۔ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ صبر و درگزر سے کام لیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں کیونکہ وہی حقیقی اور یکتا معبود ہے اس کے سوا کوئی اله نہیں ہے۔
یہی اس آیت میں مختصر اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
اللہ ہم سب کو اس کے کلام کو سمجھ کر پڑھنے والا بنائے۔
آمین
محمد علی بلوچ
Monday, 20 December 2021
آج کی آیت : السجدۃ: 20
عربی کے وہ الفاظ جنہیں ہم جانتے ہیں یا اردو
میں مستعمل ہیں:
فَسَقُوْا : نافرمانی کی
النَّارُ : جہنم
اَرَادُوْٓا : وہ
ارادہ کریں گے
اَنْ يَّخْرُجُوْا : کہ وہ
نکلیں
مِنْهَآ : اس سے
فِيْهَا : اس میں
وَقِيْلَ : اور کہا جائے گا
ذُوْقُوْا : تم چکھو
عَذَابَ النَّارِ : دوزخ
کا عذاب
تُكَذِّبُوْنَ :
جھٹلاتے
خالص عربی کے الفاظ:
وَاَمَّا : اور رہے
الَّذِيْنَ : وہ
جنہوں نے
فَمَاْوٰىهُمُ : تو ان
کا ٹھکانا
كُلَّمَآ : جب بھی
اُعِيْدُوْا : لوٹا دیئے
جائیں گے
لَهُمْ : انہیں
الَّذِيْ : وہ جو
كُنْتُمْ : تم تھے
بِهٖ : اس کو
مشکل الفاظ:
اُعِيْدُوْا : ( ع و د) لوٹنا۔
جب کسی فعل کے شروع میں مادّہ کے حرف کے علاوہ
"ا" آجائے تو اس میں کام کے ہونے سے کرنے کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔
فعل معروف Active
Voiceاور فعل مجہول
Passive Voice:
جس فعل میں فاعل موجود ہو وہ معروف ہوتا ہے، جیسے "اس نے مارا/وہ
مارے گا" اور فاعل موجود نہ ہو وہ
مجہول ہوتا ہے، جیسے "مارا گیا/مارا جائے گا" ، عربی میں اس کی عام علامت
پہلے حرف پر پیش آجاتا ہے ۔
فعل
کے آخر میں وْا جمع کی علامت ہے۔
یہ
فعل کرنے کا مفہوم بھی پیش کررہا ہے،مجہول بھی ہے اور جمع میں ہے۔
جس کا اردو میں یوں ترجمہ ممکن ہے: "لوٹا
دیئے جائیں گے"
یہ فعل ماضی ہے جس کا ترجمہ " لوٹا دیئے
گئے" ہونا چاہیے تھا مگر یہاں "لوٹا دیئے جائیں گے" کیا گیا ہے۔
یہاں زبان کے اسلوب میں ایک خاص بات ہے جس کی طرف توجہ چاہونگا جو
میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں،فعل دو قسم کے
ہوسکتے ہیں فعل ماضی
(Perfect verb) اورفعل
مضارع
(Imperfect verb)، جب کوئی مستقبل کی یقینی بات بیان کرنی ہو
تو ماضی کا فعل استعمال ہوتا ہے۔
جیسے
میں اگر کہوں "میں کرچکا" تو یہ یقنی بات ہوگی اور اگر میں کہوں کہ
"میں کرونگا" تو یہ بات پوری طرح یقینی نہیں کہ میں کرسکونگا یا نہیں۔
اُعِيْدُوْا کا
مضارع کی جگہ ماضی میں آناواضح کررہا ہے کہ
اللہ کےنافرمانوں کا ٹھکانہ" آگ" یقینی ہے۔
تفہیم:
اس سورۃ
میں آپ ﷺ کو تسلی دی گئی اور بتایا گیا کہ جس طرح پہلے موسٰی ؑکو کتاب دی گئی تھی اسی طرح یہ قرآن اللہ تعالی کی اتاری ہوئی کتاب ہے، اس کے کتاب الٰہی ہونے
میں کوئی شک نہیں، جو لوگ اسے افتراء سمجھ رہے ہیں اور جھٹلا رہے ہیں آگاہ رہیں کہ
ان کا ٹھکانہ جہنم ہے، اور اہل ایمان کو بشارت ہے کہ اللہ کی ابدی نعمتوں میں رہیں
گے۔
سابقہ آیت میں اہل ایمان کی جزا بیان کرنے کے بعد اس آیت میں فاسقوں
کا انجام بیان ہوا ہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں اپنے فرمانبرداروں ساتھ
اٹھائے۔
آمین
Sunday, 19 December 2021
ثریا سے زمیں تک
افلاک کے مالک کا فیصلہ ہے اگر تم
اس راستے پر چلے جو میں نے تمہارے لئے چنا ہے تو میں تم کو وہ بھی بخش دوں گا جو
تم نے اپنے لئے چنا ہے۔ دنیا عالم پر کئی صدیاں حکومت، سیاست اور سیادت کے افک پر
چمکنے والی، علم و حکمت کے میدان میں مغربی افکار میں نشاۃ ثانیہ برپا کرنے والی
امت آج اپنے ہی اثاثہ جات کے لئے اسلام آباد میں اکٹھی ہو کر مغرب سے دست بدستہ التجا
کر رہی ہے کہ ہم مر رہے ہیں ہمیں ہمارا سرمایہ واپس کر دو۔
ثریا سے زمیں تک کا یہ سفر ایک
دن، ایک سال، ایک دہائی کا نہیں بلکہ کئی صدیوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس نااہلی میں سائنس و ٹیکنالوجی سے بے اعتنائی، سوچ پر کئی پہرے، تحقیق سے نفرت،
دل و دماغ پر بھاری قفل اور ماضی سے سبق نہ سکھینے کے علاوہ، حکمران طبقہ کی کرپشن،
عوام کی جہالت، فرقہ پرستی، علم دشمنی، اجتہاد سے چِڑ ہے۔
ہم دہشت گرد ہیں لیکن کس کے خلاف؟ اپنے ہی لوگوں کے خلاف! اپنے ہی ملک کے خلاف، ہماری لڑائی اپنے ہی لوگوں سے ہے۔ مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا ہے۔ ایسے میں کسی بھی کانفرنس کا انعقاد کتنا فائدہ مند ہوتا ہے اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑتا ہوں ۔ لیکن ایک چیز روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک مسلمان وہ کام نہیں کریں گے جس کا ان کو حکم ہے وہ اسی طرح غیروں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔
Saturday, 18 December 2021
ہمیں امام بننا تھا
ہمیں امام بننا تھا
آو پڑھیں وہ اسباق جو ہم نے بھلا
دئیے! ہم نے صادقین کھو
دئیے جو سچ بولتے تھے اور سچ کی وجہ سے پوری دنیا ان پر یقین کرتی تھی۔ ہم کو جو
کتاب دی گئی وہ ایک صادق اور امین پر اتاری گئی اور حق اور سچ کا پرچار کرتی ہے، ہم
سچ کے امین تھے، ہمیں سچ کا پرچار کرنا تھا لیکن آج کوئی ہم پر یقین نہیں کرتا
کیونکہ ہم نے سچ بولنا اور سچ کا پرچار چھوڑ دیا۔گھر سے لے کر عالمی سطح پر ہم
جھوٹ بولتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا ہم پر یقین کرلے گی۔
ہم نے لیاقت کھو دی، علم کی جستجو
چھوڑ دی، دنیائے علم میں ستاروں کی مانند چمکنے والے ستاروں کی قوم نے اندھی تقلید
والے پیدا کرنا شروع کر دئیے اور طرفہ تماشہ یہ کے ہمیں علم ایک بوجھ نظر آنا شروع
ہوگیا، علم سے نفرت اور ڈگری سے پیار ہو گیا، ہر آزاد ریسرچ والے سے ہمیں نفرت
ہوگئی، یا تو وہ ہمیں گردن زودنی لگتا ہے یا غدار۔ مغرب سے ہمیں پیار ہے ان کے
اطوار سے پیار ہے لیکن ان کی ترقی کی وجہ، آزادانہ تحقیق اور انتھک محنت سے ہمیں
بیر ہے، ان کی تحقیق اور انتھک کاوشوں سے بنائی ویکسین میں ہمیں سازش تو نظر آتی ہے
لیکن ان کی دیگر ایجادات سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ۔منافق اذہان کبھی بھی تحقیقی
کام کی سر بلندی کو نہیں چھو سکتے جو ہمارے اباء کا شیوا تھا۔
آو شجاعت کا سبق پڑھیں، شجاعت زورِتلوار سے دشمن کو زیر کرنے کا ہی نام نہیں بلکہ
کردار و افکار سے دنیا میں سر بلند ہونا ہے، اس کے لئے گائیڈ بُک قرآن پاک اور
عملی نمونہ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اور اس شجاعت کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دنیا میں
اپنا نام بنایا۔ ایک پتہ نہیں ہلا، نا حق کوئی قتل نہیں ہوا اور تین براعظموں پر
حکومت قائم ہوگئی، شجاعت وہ تھی کہ حفاظت نہ کر سکنے پر جزیہ واپس کر دیا جاتا
تھا۔غیر مسلم آزادانہ اپنے مذہب پر بلا خوف اور خطرعمل پیرا تھے۔،اب اپنے مسلمان
ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کلمہ سنانے کی ضرورت پڑھتی ہے اور مخصوص نعرے نہ لگائے
جائیں تو گردن زودنی قرار پائیں۔ ہماری لیاقت نعرے لگانے اور نئے فرقے ایجاد کرنے
تک محدود ہو گئی، علم حاصل کرنے کے لئے چین تک جانے کا حکم ملنے والی قوم گھر کے
ساتھ والی مسجد میں نماز اس لئے نہیں پڑھتی کہ ہمارے فرقے کی نہیں ہے۔
دنوں بھوکی رہ کر بھی دنیا کی ایماندار ترین قوم کہلانے والی اب
دنیا میں کرپٹ ترین اور بے ایمان قوم کے نام سے مشہور ہے، دودھ سے لے کر زندگی بچانے والی دوائیوں تک کوئی
چیز خالص نہیں، انصاف سر بازار بکتا ہے، غریب اپنی طبعی عمر میں عدالتی نظام سے
انصاف نہیں لے سکتا۔
سیاست امیر کے گھر کی باندی اور
کاروبار کرنے یا کرپشن کے ذریعے دنیا میں جائیدادیں بنانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔
بدمعاش شریف بن گئے، ظالم مظلوم بن گئے،۔ ڈاکو معزز بن گئے اور عوام شریک جرم بن
گئے۔
لیاقت، شرافت، شجاعت، امانت اور انصاف
جو ایک مسلمان کی پہچان تھیں وہ ہم نے چھوڑ دیں یہ سب اوصاف مغرب نے اپنائے اور دنیا میں معزز قرار پایا، ہم نے چھوڑا اور راندہ
درگاہ ہو گئے۔
اب بھی وقت ہے اس رسی کو پکڑنے کا
جو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے،
قرآن اور میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جس میں سیادت کے تمام درود ہیں جو
اقوام عالم میں ہمیں عزت دلوا سکتی ہے اور ہمیں ہمارا کھویا ہوا وقار واپس دلوا
سکتی ہے۔
Thursday, 16 December 2021
Tragedies are Blessing in Disguise
Atom bombs were dropped on Nagasaki and Hiroshima, Germany was divided by erecting a wall between east and west Germany, west Germany was divided between, Russia, US and UK, and it was made a virtual brothel and turned it into a camp worse than Gestapo to inflict atrocities, torture, humiliation and mayhem seeing which even Gestapo would feel shame. But these nations stood high and strong, willing to remake what was lost, shunning mourning and rebuilding past glory they once cherished, success came to them when they showed determination as Milton said in his Paradise Lost:
Tragedies are a blessing in disguise
Tragedies do occur, shake the nation, break it, test the mettle of a person or nation. It may destroy the nation and wipe the country off the face of the earth or take the nation and a person to the boundless success. Tragedy can be a fatal blow to the identity of a person, community, nationalities or nation.
Atom bombs were dropped on Nagasaki and Hiroshima, Germany was divided by erecting a wall between east and west Germany, west Germany was divided between, Russia, US and UK, and it was made a virtual brothel and turned it into a camp worse than Gestapo to inflict atrocities, torture, humiliation and mayhem seeing which even Gestapo would feel shame. But these nations stood high and strong, willing to remake what was lost, shunning mourning and rebuilding past glory they once cherished, success came to them when they showed determination as Milton said in his Paradise Lost:
-
نوّے کی دہائی میں مارون گولڈ کا ایک اشتہارآیا کرتا تھا، مجھے یاد ہے کہ 1995 سے 1998 تک ہر عید کو وہ اشتہار PTV پر دکھایا جاتا تھا، مارون...