Saturday 8 January 2022

آج کی آیت : سورۃ التغابن: 16



فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

ترجمہ: تو اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک ہو سکے اور سنو اور مانو اور خرچ کرو اپنی بھلائی کے لیے اور جو حرض نفس کی بیماری سے محفوظ رکھے گئے وہی فلاح پانے والے ہوں گے۔

 

عربی کے وہ الفاظ جنہیں ہم جانتے ہیں یا اردو میں مستعمل ہیں

فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے

مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے

وَاسْمَعُوْا : اور سنو

وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو

وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو

خَيْرًا : بہتر ہے

لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے

نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی

هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہی ہیں فلاح پانے والے ہیں

 

خالص عربی کے الفاظ

وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا، محفوظ کرلیا گیا

شُحَّ : بخیلی سے

فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ

 

مشکل الفاظ

شُحَّ ؛ ش ح ح: شحّ کے معنی بخل کے ہوتے ہیں، بخل بھی عربی کا لفظ ہے لیکن شحّ اس بخل کو کہتے ہیں جس میں حرص ہوتا ہے اور جو انسان کی عادت میں داخل ہوچکا ہو۔

 

فَاتَّقُوا اللّٰهَ : فـ - اتقوا - اللہ

پس - بچو سب - اللہ(کی نافرمانی سے)

اتَّقُوا ؛ و ق ی: وقٰی یقی کے معنی ہوتے ہیں بچنا یا بچانا یہ قرآن حکیم کی عام مگر اہم اصطلاح ہے جس کا مطلب اللہ کی نا فرمانی سے بچنا ہے،  ظاہر ہے بچتا وہی ہے جس کو ڈر ہو اس لیے اس کے معنی ڈرو بھی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ کی محبت ہی اصل بندگی کا تقاضا ہے اسی آیت میں ایک اور لفظ بھی اسی مادّہ (و ق ی) سے ہے يُّوْقَ اس کا معنی ہے وہ(جو) بچا لیا گیا، فعل کے شروع میں  یـ  آجائے، "وہ "کا مفہوم دیتا ہے اور اس کا ترجمہ حال اور مستقبل میں کیا جاتا ہے اسے فعل مضارع کہتے ہیں اور عام طور پر ابتدائی حرف پر  "پیش" اور درمیانی حرف کی حرکت میں تبدیلی "کیا جاتا ہے/کیا گیا  یا کیا  جائے گا"  کا مفہوم دیتا ہے، جس میں فاعل واضح نہ ہو، جیسے اَنْزَلَ "اس نے نازل کیا" سے اُنْزِلَ "نازل کیا گیا"۔

 

تفہیم

جیسا میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ اس سورۃ کا موضوع اس دنیا کی زندگی کُل زندگی نہیں یہ  آزمائش کی زندگی ہے اصل آخرت کی زندگی ہے جس کے دو ہی نتائج ہوسکتے ہیں یا تو ابدی جنت یا جہنم کی آگ، اس کا فیصلہ اللہ تعالی روز قیامت ہمارے اسی دنیا کے اعمال پر کرے گا۔

لیکن وہ رب کتنا شفیق و کریم ہے کہ سب کچھ کھول کھول کر بیان کردیا۔

ایک مثال جو بہت عام ہے اس سے ہم ایسے ہی گزر جاتے ہیں جب کہ یہ رُک کر سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اسی میں نجات ہے۔

 وہ مثال یہ ہے۔

"اس زندگی کے کمرہ امتحان میں اللہ نے پیپر آؤٹ کردیا ہے"

اس آیت میں یہی بات جامع انداز میں بیان ہے، گویا کل نجات کا فارمولا ہے۔

جو بندہ چاہتا ہے ابدی جنت میں اپنا مقام بنا لے تو اس دنیا میں:

#جتنی تم میں استطاعت ہے اللہ کی نافرمانی سے بچو۔

#اللہ کی سنو اور اطاعت کرو۔

#جو اس نے دیا اس سے خرچ کرو کیونکہ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔

#انسان کے حرص کی عادت اسے بخیل بنادیتا ہے اور وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ مال اس کا ہے اور ہاتھ روک کر اللہ کے جاری کردہ نظام معیشت میں رکاوٹ بنتا ہے۔

#لیکن وہ نہیں جانتا اس کے ان احکامات میں ہی اس کی فلاح ہے۔

 

اللہ ہم سب کو اس کے مطلوب بندوں میں شامل فرمائے۔

آمین
محمد علی بلوچ

4 comments:

  1. Jazak Allah
    May Allah bless you for your endeavor in letting us understand the meaning and explanation of the Holy Quran.

    ReplyDelete
  2. جزاک اللہ خیرًا سر

    ReplyDelete
  3. ماشاءاللہ سر۔
    بہت خوب

    ReplyDelete

Thanks for reading the blog... Keep reading, sharing and spreading.

IDIOMS 5