Saturday, 22 January 2022

آج کی آیت : الدخان :51

  


اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِىْ مَقَامٍ اَمِيْنٍ 

ترجمہ: بیشک جو خدا سے ڈرنے والے ہوں گے وہ مقام امن میں ہوں گے۔

 

عربی کے وہ الفاظ جنہیں ہم جانتے ہیں یا اردو میں مستعمل ہیں:

الْمُتَّقِيْنَ :متقی لوگ

 فِيْ  مَقَامٍ: جگہ پر ہوں گے

اَمِيْنٍ : امن والی

 

خالص عربی کے الفاظ:

اِنَّ: بیشک

 

تفہیم:

اس سورۃ کا موضوع رسالت اور قرآن کا انکار کرنے والوں کے لیے انذار ہے انہیں تنبیہہ اسلئے  کی جارہی ہے تاکہ وہ سمجھ جائیں، بجائے دنیا و آخرت کی ذلت کے وہ ابدی نعمتوں میں رہیں۔

اس سے سابقہ آیات میں جہنم کا احوال بتایا گیا کہ گناہگاروں کا انجام کیا ہوگا اور آیت 50 میں وجہ بتا دی۔ آیت 51 سے اب  خدا ترس لوگوں کے لیے جنت کی ابدی نعمتوں کا ذکر ہے، اس کی تصویر پیش کی جارہی ہے، جس میں پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ متقی لوگ امن والی جگہ میں ہونگے۔

یہاں زبان کے اسلوب  میں ایک خاص بات ہے جس کی طرف توجہ چاہونگا، عربی میں فعل کے بغیر بھی جملہ بن جاتا ہے، اسم اور فعل کا تقابل کیا جائے تو فعل کمزور مانا جاتا ہے کیونکہ وہ زمانے کا محتاج   ہوتا ہے اور اسے کسی کرنے والے یعنی فاعل کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی کبھی غیر یقینی بھی ہوتا ہے ، جبکہ اسم کو نہ کسی کرنے والے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ زمانے کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے، نحمدہُ "ہم اس کی حمد کرتے ہیں" سے زیادہ قوی جملہ ہے  الحمدللہ  "تمام حمد اللہ کے لیے ہے" ، اللہ کی تعریف کوئی کرے نہ کرے اس کی تعریف ہے، اس کی تعریف ماضی میں بھی تھی حال میں بھی ہے اور مستقبل میں بھی ہوگی، کسی ایک زمانہ میں قید نہیں۔

اور اسم  میں جب کوئی بات کی جاتی ہے تو اس میں تبدیلی ممکن نہیں اور یقینی بات ہوتی ہے جبکہ فعل  دو قسم کے ہوسکتے ہیں یقینی perfectverb اورغیر یقینی imperfect verb۔ جیسے میں اگر کہوں "میں کرچکا" تو یہ یقینی بات ہوگی اور اگر میں کہوں کہ "میں کرونگا" تو یہ بات پوری طرح یقینی نہیں کہ میں کرسکونگا کہ نہیں۔

اس آیت میں اسم کے استعمال سے اس بات کو یقینی بنا کرپیش کیا گیا ہے کہ اللہ  کے فرمانبرداروں کا یہ مقام یقینی ہے، اور ایسے ہی اگلی آیت میں ہے، جبکہ یہ بات مستقبل کی ہورہی ہے کہ ایسا جنت میں ہوگا اور ہم جانتے ہیں ہوگا کے لیے فعل مضارع استعمال ہوتا ہے جو   ہے imperfect verb

سبحان اللہ۔ 

ہم اپنے شفیق و مہربان رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائیں گے؟ اور اس کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔

اللہ ہمیں اس کا بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین

محمد علی بلوچ

Saturday, 15 January 2022

آج کی آیت : الدخان :41


 

یَوْمَ لَا یُغْنِیْ مَوْلًى عَنْ مَّوْلًى شَیْئًا وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ

ترجمہ: جس دن کوئی رشتہ دار کسی رشتہ دار کے کام نہیں آئے گا اور نہ ان کی کوئی مدد ہی ہو سکے گی۔

 

عربی کے وہ الفاظ جنہیں ہم جانتے ہیں یا اردو میں مستعمل ہیں:

يَوْمَ : جس دن

 لَا يُغْنِيْ : نہ کام آئے گا

مَوْلًى : کوئی عزیز،کوئی  قریب، کوئی دوست

شَيْئًا : کچھ بھی

وَّلَا هُمْ : اور نہ وہ

 يُنْصَرُوْنَ : مددئیے جائیں گے

 

خالص عربی کے الفاظ:

عَنْ : سے/کو/کے بارےمیں

 

مشکل الفاظ:

 لَا يُغْنِيْ  ؛ لَا - یُـ - غنی

نہیں - وہ - کام آئے گا

غنی (غ ن ی) :الغنی- حاجات سے بے نیازی،تونگری، آسودگی، یہ فقر (محتاجی) کی ضد ہے۔ جس جملہ میں اسکے بعد عن آتا ہے تو معنی "کام نہ آنا" کیا جاتا ہے، یہ عربی کا عام اسلوب ہے جو اکثر الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے (اس کی تفصیل ہے)۔

 

مَوْلًى (و ل ی): یہ لفظ ولی سے ہے جس کے معنی سرپرست اور قریب(نزدیکی تعلق)  کے ہوتے ہیں اس لیے دوست کے معنوں میں بھی ترجمہ ہوتا ہے۔

مولٰی  کے معنی سرپرستی کرنے والا ، دوست، عزیز، رشتہ دار ہوتے ہیں جملہ کی مناسبت سے اس آیت میں اس کا ترجمہ "عزیز/رشتہ دار" ہی بہتر ہے کیونکہ قرآن کی دیگر اس جیسی آیات کو سامنے رکھا جائے تو وہاں رشتہ داروں سے متعلق یہ بات بیان ہوئی ہے۔

 عَنْ: ویسے عام طور پر عَنْ کے معنی "سے"  ہوتے ہیں، لیکن یہ حروف میں سے ہے اور کسی بھی زبان میں حروف جملہ کی مناسبت سے ترجمہ کیئے جاتے ہیں، اور ان حروف کا کچھ  اثر یا عمل اپنے ساتھ والے اسم یا فعل پر ہوتے ہیں  (یہ ایک تفصیلی موضوع ہے)۔ اس آیت میں  عَنْ  کا ترجمہ جملہ کی مناسبت سے "کو" کیا گیا ہے، جس سے ہماری زبان میں اس جملہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔


تفہیم:

سورۃ الدخان کا بنیادی موضوع انذار ہے، انذار اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے رسالت اور قرآن کا انکار کیا یعنی مشرکین مکّہ جنہوں نے  مذاق بنایا اور طرح طرح کے سوالات رکھے جن کا مقصد نہ ماننا تھا۔ ان کا  شفاعت کا  یہ عقیدہ تھا کہ ہمارے باپ یا ہمارے بزرگ ہماری سفارش کریں گے، محمدﷺ ہمیں ایسے ہی ڈراتا ہے کہ ہم جہنم میں جائیں گے،  اس آیت میں ان کے اس عقیدے کی نفی کی اور ایک اصولی بات بیان کی گئی ہے کہ جو اعمال تم کرکے آؤ گے اس کا بدلہ پاؤ گے،  اس دن (روز قیامت) کوئی رشتہ دار ،دوست، بزرگ کسی کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی مدد ہوسکے گی۔

 

اللہ تعالی ہمیں ایسے اعمال کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی بارگاہ میں قبول ہوں اور ہماری نجات کا ذریعہ بنیں۔

آمین

محمد علی بلوچ

Sunday, 9 January 2022

آج کی آیت : سورۃ التغابن: 17

 


اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌۙ

ترجمہ: اگر تم اللہ کو قرض حسن دو گے تو وہ اس کو تمہارے لیے مضاعف کرے گا اور تمہیں بخشے گا اور اللہ قدر دان اور برد بار ہے۔

 

عربی کے وہ الفاظ جنہیں ہم جانتے ہیں یا اردو میں مستعمل ہیں:

اِنْ تُقْرِضُوا : اگر تم قرض دو گے

اللّٰهَ : اللہ کو

قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ

يُّضٰعِفْهُ لَكُمْ : بڑھا دے گا اس کو تمہارے لیے

وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخش دے گا تم کو

وَاللّٰهُ : اور اللہ

شَكُوْرٌ حَلِيْمٌ : قدردان ہے ، بردبار ہے

 

خالص عربی کے الفاظ:

     اب الحمد للہ پہچان ہوگئی ہے اسلئے  خالص عربی  کےالفاظ ملا کر لکھے ہیں ، کچھ الفاظ اپنے معنی دوسرے الفاظ سے مل کر ہی واضح کرتے ہیں، گرائمر کی اصطلاح میں انہیں حروف کہتے ہیں جیسے "اِنْ"، "اَنْ"، "عن"، "فی" وغیرہ اسی طرح ضمائر بھی. لہٰذا ان حروف و ضمائر کو ان الفاظ کے ساتھ لکھا ہے.

 

مشکل الفاظ:

 يُّضٰعِفْهُ:

یُـ - ضٰعِفْ - ہُ

وہ - بڑھا دے گا - اسے

ضٰعِفْ؛ ض ع ف : اس مادّہ سے آنے والے الفاظ دو معنوں میں قرآن میں استعمال ہوئے ہیں ایک "ضُعف (کمزور)" دوسرا "بڑھانا". بظاہر یہ دو مخالف الفاظ ہیں، لغت میں اس کی بہت تفصیل ہے میں مختصر الفاظ میں بات واضح کرنے کی کوشش کرونگا۔

کسی شئے کے کمزور ہونے میں دو ہی صورتیں ممکن ہیں یا تو اس کی کمزوری واضح ہو، یا اس کے سامنے اس سے بڑھ کر کوئی شئے آجائے۔

اس آیت میں اسی دوسرے معنوں میں آیا ہے۔ اس کے معنی "دوگنا" بھی کیئے جاتے ہیں مگر درست ترجمہ "بڑھانا" Multiple ہے۔

 

تفہیم:

سابقہ آیت میں انفاق کا ذکر آیا ہے جس مراد زکوٰۃ، صدقات اور خیرات یعنی عام انفاق ہے، اس آیت میں انفاق بطور خاص آیا ہے جسے قرض حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے. یہ قرآن حکیم کی خاص تعبیر ہے، اللہ کو قرض دینے سے مراد اللہ کے دین کی نصرت پر خرچ کرنا، جب قرآن کا نزول ہورہا تھا آپﷺ کو افرادی قوت کے ساتھ مالی قوت کی بھی ضرورت تھی جس کے ذریعے جہاد کیا جائے، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے ان دونوں صورتوں میں نصرت دین کا کام کیا۔  اس وقت قرض حسنہ کی تعبیر فقط قتال فی سبیل اللہ کے لیے مخصوص تھی مگر آج اس کی بہت سے صورتیں موجود ہیں۔ جیسے دعوت و تبلیغ پر خرچ کرنا، تعلیم و تعمیر پر خرچ کرنا جس سے دین کو فائدہ ہو وغیرہ وغیرہ۔

 جس کا انعام و بدلہ بھی اللہ نے واضح کردیا ہے کہ اللہ سب سے بڑھ کر قدردان و بردبار ہے وہ اس قرض کے بدلے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کی صورت میں  بھی عطا کرے گا، وہ بھی بڑھا چڑھا کر۔

 

اللہ ہمیں اس کے دین پر خرچ کرنے والا بنائے۔

آمین

محمد علی بلوچ


Saturday, 8 January 2022

آج کی آیت : سورۃ التغابن: 16



فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

ترجمہ: تو اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک ہو سکے اور سنو اور مانو اور خرچ کرو اپنی بھلائی کے لیے اور جو حرض نفس کی بیماری سے محفوظ رکھے گئے وہی فلاح پانے والے ہوں گے۔

 

عربی کے وہ الفاظ جنہیں ہم جانتے ہیں یا اردو میں مستعمل ہیں

فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے

مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے

وَاسْمَعُوْا : اور سنو

وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو

وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو

خَيْرًا : بہتر ہے

لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے

نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی

هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہی ہیں فلاح پانے والے ہیں

 

خالص عربی کے الفاظ

وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا، محفوظ کرلیا گیا

شُحَّ : بخیلی سے

فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ

 

مشکل الفاظ

شُحَّ ؛ ش ح ح: شحّ کے معنی بخل کے ہوتے ہیں، بخل بھی عربی کا لفظ ہے لیکن شحّ اس بخل کو کہتے ہیں جس میں حرص ہوتا ہے اور جو انسان کی عادت میں داخل ہوچکا ہو۔

 

فَاتَّقُوا اللّٰهَ : فـ - اتقوا - اللہ

پس - بچو سب - اللہ(کی نافرمانی سے)

اتَّقُوا ؛ و ق ی: وقٰی یقی کے معنی ہوتے ہیں بچنا یا بچانا یہ قرآن حکیم کی عام مگر اہم اصطلاح ہے جس کا مطلب اللہ کی نا فرمانی سے بچنا ہے،  ظاہر ہے بچتا وہی ہے جس کو ڈر ہو اس لیے اس کے معنی ڈرو بھی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ کی محبت ہی اصل بندگی کا تقاضا ہے اسی آیت میں ایک اور لفظ بھی اسی مادّہ (و ق ی) سے ہے يُّوْقَ اس کا معنی ہے وہ(جو) بچا لیا گیا، فعل کے شروع میں  یـ  آجائے، "وہ "کا مفہوم دیتا ہے اور اس کا ترجمہ حال اور مستقبل میں کیا جاتا ہے اسے فعل مضارع کہتے ہیں اور عام طور پر ابتدائی حرف پر  "پیش" اور درمیانی حرف کی حرکت میں تبدیلی "کیا جاتا ہے/کیا گیا  یا کیا  جائے گا"  کا مفہوم دیتا ہے، جس میں فاعل واضح نہ ہو، جیسے اَنْزَلَ "اس نے نازل کیا" سے اُنْزِلَ "نازل کیا گیا"۔

 

تفہیم

جیسا میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ اس سورۃ کا موضوع اس دنیا کی زندگی کُل زندگی نہیں یہ  آزمائش کی زندگی ہے اصل آخرت کی زندگی ہے جس کے دو ہی نتائج ہوسکتے ہیں یا تو ابدی جنت یا جہنم کی آگ، اس کا فیصلہ اللہ تعالی روز قیامت ہمارے اسی دنیا کے اعمال پر کرے گا۔

لیکن وہ رب کتنا شفیق و کریم ہے کہ سب کچھ کھول کھول کر بیان کردیا۔

ایک مثال جو بہت عام ہے اس سے ہم ایسے ہی گزر جاتے ہیں جب کہ یہ رُک کر سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اسی میں نجات ہے۔

 وہ مثال یہ ہے۔

"اس زندگی کے کمرہ امتحان میں اللہ نے پیپر آؤٹ کردیا ہے"

اس آیت میں یہی بات جامع انداز میں بیان ہے، گویا کل نجات کا فارمولا ہے۔

جو بندہ چاہتا ہے ابدی جنت میں اپنا مقام بنا لے تو اس دنیا میں:

#جتنی تم میں استطاعت ہے اللہ کی نافرمانی سے بچو۔

#اللہ کی سنو اور اطاعت کرو۔

#جو اس نے دیا اس سے خرچ کرو کیونکہ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔

#انسان کے حرص کی عادت اسے بخیل بنادیتا ہے اور وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ مال اس کا ہے اور ہاتھ روک کر اللہ کے جاری کردہ نظام معیشت میں رکاوٹ بنتا ہے۔

#لیکن وہ نہیں جانتا اس کے ان احکامات میں ہی اس کی فلاح ہے۔

 

اللہ ہم سب کو اس کے مطلوب بندوں میں شامل فرمائے۔

آمین
محمد علی بلوچ

Wednesday, 5 January 2022

آؤ دعا کریں۔


 دعا ہمارا وہ یقین ہے جس میں ہم اپنی ہر پریشانی، دکھ ، تکلیف، بزرگ و برتر ہستی کے آگے پیش کر کے ، اس کے سپرد کر کے دل میں امید کی کرن اور حوصلے کا میدان سجا کر دنیاوی آلام کے میدان میں سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اب میری ہر پریشانی کا ذمہ اس ذات باری تعالی نے لے لیا ہے ۔

دعا اس بات کا بھی اظہار ہے کہ انسانی قدرت میں جو کوشش اس ذات  نے رکھی ہے اس کو کرنے میں میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کروں گا۔

اهدناالصرط المستقيم  میں یہ ہی سبق ہے کہ میں اس راستے پر چلوں گا جو سیدھا ہے اور جو تیری راہ ہے اور تیری طرف لے جانے والی ہے۔اس پر ثابت قدم رہنے کے لئے مجھے تیرے سہارے کی ضرورت ہے۔ مجھے ثابت قدم رہنے والوں میں سے بنا اور اس راستے میں آنے والی مشکلات اور شیطانی روکاوٹیں اپنے فضل اور کرم سے دور فرما۔ مجھے اپنی رحمت اور کرم سے ان ہھتیاروں سے لیس کر دے کہ میں صرف اسی راستے کا مسافر رہوں حتی کہ تم سے آن ملوں۔ 

کیونکہ اسی راستے پر جو لوگ تھے ان کی مثال تم نے  ہی تو مجھے دی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو سیدھا تیری جنت کو جاتا ہے جو تو نے اپنے بندوں کے لئے بنائی ہے اور اس میں داخلہ دے کر تو ان پر اپنا انعام کر گا۔

 

Glamourized Lost Soul

 


Have we been lost in the glory of past?
or glory has been lost to us?
Every single Muslim has a carved emotions for the glory that they had had in the past and merrily cherish the day when Muslims bask in the sunshine of research, craved for knowledge and had a fire inside which forces them to write analytically, think objectively and research thoroughly; when they shun their personal bias for the sake of objectivity, when they travel far and wide in search of truth and follow the scientific method to ascertain the topic in hand. 

Their hypotheses were not the figment of their imaginations but were based on research, analysis and testing before drawing any conclusion. Unfortunately 
 the scientific method was crucified and suffocated by the people whose authority was rested on sham beliefs so that they could exploit the ignorant and illiterates.
All the great names whom we cherish as the harbingers of Western Renaissance were punished, tortured, and confined to death cells to save the public from the scientific approach.
The same spirit rules today when we abuse every new research and cast aside that by saying it a propaganda of the west. We take refuge in western conspiracies to hide our own ignorance and loathe to modern analytical and scientific approach.
Ignorance and illiteracy are the tools which always benefit those in power.













Monday, 3 January 2022

ایک کلمہ

 

نیند بیچ دی ہم نے

چند سکوں کی خاطر
اصول بیچ دئیے ہم نے 
چند عہدوں کی خاطر
سکوں بیچ دیا ہم نے
چند رتبوں کی خاطر
آنکھیں بیچ دی ہم نے

کس کی خاطر ، کس کے لئے، کتنے میں اور کیوں؟
لذت بیچ دی ہم نے
افکار بیچ دئیے ہم نے 
اذکار بیچ دئیے ہم نے
آداب بیچ دئیے ہم نے
دل بیچ دیا ہم نے
دماغ بیچ دیا ہم نے
اپنا سب کچھ لذت کام و دہن کی خاطر، دنیاوی آرام و آسائش کی خاطر بیچ دیا
اور انہیں چیزوں میں  ہم دلی سکون ، دماغی چین اور روحانی قرار ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ 

“Will all great Neptune’s ocean wash this blood
Clean from my hand?”

آئیں اس کو وہاں ڈھونڈتے ہیں جہاں پر اس کو رکھا گیا ہے۔

“A little water clears us of this deed: How easy is it then!”

صرف ایک کلمہ ہے جہاں سارا کچھ جو ہم نے لٹا دیا وہ ہمیں مل جائیگا۔
"آلا بذکر اللہ تطمئن اللہ قلوب "
جو گذر گیا اس کو چھوڑ کر 
جو باقی بچا اس کو اس کلمہ سے بچا لیں  اس مہلت میں جو ہمارے پاس آج بھی ہے۔ وگرنہ 

“Sleep no more! Macbeth does murder Sleep.”







آج کی آیت : سورۃ التغابن:15

    


اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ

ترجمہ: تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے امتحان ہیں اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔


عربی کے وہ الفاظ جنہیں ہم جانتے ہیں یا اردو میں مستعمل ہیں:

اَمْوَالُكُمْ : مال تمہارے

وَاَوْلَادُكُمْ : اور اولاد تمہاری

فِتْنَةٌ : آزمائش ہیں

وَاللّٰهُ : اور اللہ

اَجْرٌ عَظِيْمٌ : اجرعظیم ہے

 

خالص عربی کے الفاظ:

اِنَّمَاۤ : بیشک (یہ صرف کے معنوں میں بھی آتا ہے)

عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس

 

مشکل الفاظ:

فِتْنَةٌ ؛ ف ت ن : ویسے یہ لفظ مشکل تو نہیں مگر اردو میں ہم اسے صرف منفی معنی میں ہی استعمال کرتے ہیں جیسے "فلاں شخص فتنہ ہے" یا "بازار فتنوں سے بھرا ہوا ہے" وغیرہ۔

لیکن قرآن میں یہ لفظ آزمائش کے معنوں میں آیا ہے۔

در حقیقت یہ لفظ سخت آزمائش کے لیے آتا ہے جیسے آگ پر پکانا،  لفظ فتّنہ کا مطلب ہوتا ہے سونے کو آگ پر پگھلانا تاکہ کھوٹ باہر نکل آئے اور خالص ہوجائے۔

ایسی آزمائش جس سے انسان کے ایمان سے کھوٹ نکل جائے اور خالص ہوجائے۔

جس طرح سونے میں کھوٹ اندر ہوتا ہے اسے پگھلا کر ہی کھوٹ سے خالص کیا جاسکتاہے اسی طرح  ایمان بھی دل میں ہوتا ہے،  اندر ہوتا ہے اور سخت آزمائش ہی اس کا کھوٹ دور کرسکتی ہے،  اگر یہ آزمائش نہ ہو تو ایمان کا خالص ہونا ممکن نہ ہو،

اور عام طور پر یہ لفظ ایمان کے ساتھ ہی آتا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں آزماتا اس لیے ہے کہ ایمان خالص ہوجائے اور ہم نجات پا لیں، یہ بھی اللہ کی نعمت ہے۔

سورۃ العنکبوت کی ابتدائی آیات میں یہ موضوع بہت خوبصورت انداز میں بیان ہوا ہے۔

 

تفہیم:

سورۃ التغابن کا موضوع : دنیا کی زندگی ہی کل زندگی نہیں، اصل آخرت کی زندگی ہے اور اس دنیا میں دکھ، غم پریشانیاں اور نعمتیں ہر شئے بطور آزمائش ہے یہاں تک مال و اولاد بھی آزمائش بنیں گے، اور ایک روز اس ربّ کے حضور پیش ہونا ہے اور وہ دن حساب کا دن ہوگا۔  جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ صبر و درگزر سے کام لیں اور  اللہ پر بھروسہ رکھیں کیونکہ وہی حقیقی اور یکتا معبود ہے اس کے سوا کوئی اله نہیں ہے اور وہی ہے جو حقیقی اجر دینے والا ہے۔

یہی اس آیت میں مختصر اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اللہ ہم سب کو اس کے کلام کو سمجھ کر پڑھنے والا بنائے۔
آمین


محمد علی بلوچ

اومیکرون

 
اومیکرون 

انسان کے پاس دولت آجائے ، طاقت ہو، اختیار ہو تو وہ اردگرد بسنے والے انسانوں کو حشرات سے بھی حقیر سمجھنے لگ ہےاور بعض اوقات اسی غرور میں مالک کائنات کی ہستی کو بھی چیلنج کر کے پکار اٹھتا ہے" آنا ربکم اعلی۔ لیکن مالک کائنات اس کی طاقت کے غرور کو ایک مچھر کے ذریعے یا دریا کے پانی کو حکم دے کر اس کا غرور آن واحد میں خاک میں ملا دیتا ہے۔ 

سائنسی اور تیکنیکی ترقی کے لحاظ سے دنیا اس وقت اپنی معراج پر ہے اور ترقی کا یہ سفر تیز تر رفتار سے جاری ہے۔ انسان اس کو اپنی محنت کا شاخسانہ سمجھ کر ایک ایسے غرور میں مبتلا ہو گیا کہ ازل سے اب تک جتنے زمینی خدا آئے ہیں خدائی کے دعوی میں ان سے بھی آگے نکل گیا۔ حتی کہ وجود خدا کا بھی منکر ہوگیا۔ 

خدا کو اپنے ہونے کا یقین دلانے کے لئے ، اپنی طاقت، قدرت، اور حاکمیت اعلی کے لئے زمیں پر اترنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ "مالک کن "ہے ۔ وہ اپنی نشانیوں سے انسان کو اپنی پہچان کرواتا ہے۔ سیلاب، طوفان، سونامی، زلزلے، بیماریاں، یہ سب انسان کو اپنی لاچاری اور رب کائنات کی قہاری کی پہچان کرواتی ہیں۔ 

تین سالوں سے انسان ایک چھوٹے سے جرثومے سے جس کو انسانی آنکھ طاقتور خوردبین کے بغیر دیکھ بھی نہیں سکتی اس کے ہاتھوں لاچار ہے۔ ویکسنیشن کے بعد بھی انسان اس کی لائی ہوئی تباہی اور ہلاکتوں سے نہیں بچ سکتا۔ ایک مچھر میں اور مچھر سے بھی لاکھوں گنا چھوٹے جرثومے میں یہ طاقت کہاں سے آئی۔ یہ طاقت اس  قہار، جبار، اور خالق کی عطا ہے۔ یہ وبا اس کے رحم کا ثبوت ہے کہ اس نے ہماری تمام لغزشوں کے باوجود ہمیں اس دنیا کو آن واحد میں ختم کرنے کی طاقت کے باوجود ہمیں معافی مانگنے کی مہلت ایک بار پھر دے دی ہے۔ وہ چاہتا تو ہم اپنے ہی سر پر جوتے مار رہے ہوتے یا اس موت کے سیلاب میں غوطے کھا رہے ہوتے لیکن معافی کی مہلت دے کر اس نے عالم انسان کو ایک دفعہ پھر بتا دیا کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے۔

 

Sunday, 2 January 2022

شاہ کی آمد پر ڈھول پیٹنا

     


 
آپ میں سے بھی اکثر لوگ اس مشاہدے سے گزرے ہونگے کہ اچانک گھر میں فرنیچر اِدھر سے اُدھر ہونا شروع ہوگیا کچھ نئی  چیزیں آرہی ہوتی ہیں اور دیگر چیزوں کو  نکال باہر کیا جا رہا ہوتا ہے چاہے وہ پہلے کتنی  ہی خوبصورت رہیں ہوں آپ کی نظر  میں، کتنی ہی عزیز رہیں ہوں یا کسی کی نشانی ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ سب فقط اس لیے ہورہا ہوتا ہے کہ گھر میں کسی خاص شخصیت کی آمد آمد ہورہی ہوتی ہے، اور ایسا اس لیے ہورہا ہوتا ہے کیوں کہ وہ شخص ہر چیز سے زیادہ عزیز  ہوتا ہے ،اس کی شخصیت کا آپ پر کچھ رعب ہوتا ہے یا آپ عزت کررہے ہوتے ہیں  یا ہوسکتا ہے آپ اس سے ڈر رہے ہوتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے اگلے دور میں جب شاہ اپنے دربار میں اپنی رعایہ کے سامنے حاضر ہورہا ہوتا تھا تو ڈھول پیٹا جاتا تھا ، گویا ڈھول کا پیٹا جانا ہمیں یہی بتاتا تھا کہ  بادشاہ کی آمد ہے ، در حقیقت  آج کل ہمارے گھر میں توڑ پھوڑ اور چیزوں کا الٹ پلٹ کرنا ،نئی سجاوٹ کرنا ،پرانی چیزوں کو ختم کرنا، اس ڈھول پیٹنے کی طرح ہے۔جس میں یہ اعلان کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ کس کی آمد ہے۔

       آج میرے شہر کراچی میں جو سجاوٹ کے نام پر توڑپھوڑ، شہر کو اپنی سابقہ شکل میں بحال کرنے کی باتیں ، پچاس سال پہلے کا کراچی۔۔۔  نہیں معلوم کس شاہ کی آمد کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔

       جب زمین کا سودا ہوتا ہے تو اس پر رہنے والوں کی قیمت کچھ بھی نہیں ہوتی۔ کچھ ایسا ہی منظر میں دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔

       میرے شہر کے باشعور لوگوں کے نام میرا پیغام

 

              محمد علی بلوچ (فروری 2019)

 


IDIOMS 5